
بے خوابی: وجوہات، اثرات اور علاج
نیند انسانی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے، لیکن بہت سے لوگ رات کو صحیح طریقے سے سو نہیں پاتے۔ اگر کوئی آدھی رات کو اچانک جاگ جائے اور دوبارہ سونا مشکل ہو جائے تو یہ بے خوابی کی علامت ہو سکتی ہے، جو عارضی یا طویل المدتی مسئلہ بن سکتی ہے۔
بے خوابی کیوں ہوتی ہے؟
نیند میں خلل کئی وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے، جن میں شامل ہیں:
- بڑھاپے کا اثر
- رات کے وقت بار بار پیشاب کی حاجت
- مینوپاز (سن یاس)
- نائٹ شفٹ میں کام کرنا
- ذہنی دباؤ یا پریشانی
- غیر صحت مند طرز زندگی اور خوراک کی عادات
- زیادہ موبائل، ٹی وی یا کمپیوٹر کے استعمال سے دماغ کا حد سے زیادہ متحرک ہو جانا
کب ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے؟
ماہرین کے مطابق، اگر کسی کو ہفتے میں تین یا زیادہ رات نیند کے مسائل ہوں اور یہ تین مہینے سے زیادہ جاری رہے، تو اسے ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہیے۔ بے خوابی صرف رات کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ دن بھر کی کارکردگی پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔
ماہرین کے نیند کے مشورے
یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر فیتھ آرچرڈ کہتی ہیں: “اگر مجھے نیند نہ آئے، تو میں کتاب پڑھنا شروع کر دیتی ہوں اور اس وقت تک پڑھتی رہتی ہوں جب تک میں خود کو ہلکا محسوس نہ کروں۔”
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کولن ایسپی کہتے ہیں: “اگر نیند نہ آئے، تو میں بستر چھوڑ کر کچھ اور کرتا ہوں اور پھر دوبارہ سونے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ نیند کی بحالی کے عمل کی طرح کام کرتا ہے۔”
بے خوابی کی علامات
ماہرین نے بے خوابی کی کچھ عام علامات کی نشاندہی کی ہے، جن میں شامل ہیں:
- نیند آنے میں دیر لگنا
- آدھی رات کو جاگ جانا اور دوبارہ نیند نہ آنا
- بہت صبح جاگ جانا
- دن بھر تھکن محسوس کرنا
دماغ میں کیا ہوتا ہے؟
نیند اور بیداری کے پیچھے دو اہم عوامل کام کرتے ہیں:
- نیند کو تحریک دینے والے ہارمونز: دن بھر کی تھکن کے نتیجے میں جسم میں نیند کی طلب پیدا ہوتی ہے۔
- ذہنی دباؤ اور پریشانی: اگر دماغ پریشان یا فکر مند ہو، تو یہ نیند کے قدرتی عمل کو متاثر کرتا ہے۔
پروفیسر ایسپی کہتے ہیں: “انسانی دماغ ارتقائی طور پر خطرات کے بارے میں چوکنا رہنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، اسی لیے پریشانی ہمارے دماغ کو بیدار رکھتی ہے، جو نیند میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔”
عمر اور عادات کا نیند پر اثر
عمر کے ساتھ نیند کے انداز بدلتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے دیر رات جاگنا اور صبح دیر سے اٹھنا معمول کی بات ہے، جبکہ بوڑھوں کو آدھی رات کو جاگنے کی زیادہ شکایت ہوتی ہے۔
نیند کے پیٹرن پر جینیاتی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ آسانی سے پریشان ہو جاتے ہیں یا زیادہ فکرمند رہتے ہیں، ان میں بے خوابی کا مسئلہ زیادہ پایا جاتا ہے۔
اگر نیند نہ آئے تو کیا کریں؟
پروفیسر ایسپی کہتے ہیں: “اگر نیند نہ آئے، تو اسے زبردستی لانے کی کوشش نہ کریں، بلکہ جاگنے کا فیصلہ کریں۔ اس سے نیند خود بخود آ جائے گی۔”
ماہرین کے چند مشورے یہ ہیں:
- ہر روز ایک مقررہ وقت پر سونا اور جاگنا
- نیند کے لیے مخصوص جگہ کا تعین کرنا
- بستر پر بیٹھ کر کام نہ کرنا
- سونے کے بعد نیند نہ آئے تو کچھ اور کرنا
- رات کو کیفین اور چینی کے زیادہ استعمال سے پرہیز کرنا
- باقاعدہ ورزش کرنا
- میڈیٹیشن اور ریلیکسیشن کی مشقیں کرنا
کیا نیند کی گولیاں لینا ٹھیک ہے؟
ماہرین نیند کی دوائیوں کے بجائے کونگنیٹیو بیہیویورل تھراپی (CBT) تجویز کرتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تھراپی 70-80% لوگوں کی نیند کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اسکرین اور بے خوابی کا تعلق
کیا سونے سے پہلے اسکرین دیکھنے سے نیند متاثر ہوتی ہے؟ ڈاکٹر فیتھ آرچرڈ کہتی ہیں: “یہ اہم ہے کہ آپ اسکرین پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ اگر وہ چیز پریشانی پیدا کرتی ہے، تو یہ نیند میں خلل ڈال سکتی ہے۔”
ماہرین کے مطابق، سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے موبائل اور دیگر اسکرین ڈیوائسز بند کر دینی چاہئیں، تاکہ دماغ آہستہ آہستہ آرام کے لیے تیار ہو سکے۔
مینوپاز، الکحل اور نائٹ شفٹ کا اثر
- مینوپاز: خواتین میں ہارمونی تبدیلیوں کی وجہ سے نیند متاثر ہو سکتی ہے۔
- الکحل: یہ نیند کی گہرائی کے انداز کو بدل سکتا ہے اور بار بار جاگنے کا سبب بن سکتا ہے۔
- نائٹ شفٹ: نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کو اپنے نیند کے معمولات کو برقرار رکھنے کے لیے دن کے وقت چھوٹے وقفوں میں نیند لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
نتیجہ
بے خوابی ایک عام مسئلہ ہے، لیکن اگر یہ طویل عرصے تک جاری رہے، تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ نیند کا صحیح معمول اپنانے، ذہنی سکون برقرار رکھنے اور صحت مند عادات اختیار کرنے سے بے خوابی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔